Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

الفاظ اور بولوں کا کردار پر اثر (دیوان سنگھ مفتون)

ماہنامہ عبقری - ستمبر 2009ء

کام سے محبت ایڈیٹر” ریاست“ کا وطن حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ ہے۔ یہ وہاں کے ایک کھنہ کھتری سکھ خاندان میںپیدا ہوئے۔ خاندان کے لوگ عام طور پر ملازمت پیشہ اور اچھے عہدوں پر ہیں اور بعض سرکاری خطاب یافتہ بھی ہیں۔ ایڈیٹر ” ریاست“ کے والد اپنے زمانہ میں ایک کامیاب ڈاکٹر تھے۔ جو بنوں ‘ میانوالی اور جہلم وغیرہ میں سرکاری ملازم رہے۔ ایڈیٹر ” ریاست“ کی عمر ایک ماہ دس روز کی تھی۔ جب والد کا انتقال ہو گیا اور یتیمی نصیب ہوئی۔ اس وقت گھر میں کافی روپیہ‘ زیورات‘ زمین اور مکانات تھے کیونکہ والد نے اپنی کامیاب زندگی میں کافی روپیہ پیدا کیا تھا مگر والد کے انتقال کے بعد رشتہ داروں نے زمین اور مکانات پر قبضہ کر لیا اور بارہ سال تک بغیر کسی آمدنی کے ضروریات زندگی اور بڑے بھائی اور چار بہنوں کی شادیوں پر روپیہ صرف ہونے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیٹر ” ریاست“ کی عمر جب بار ہ سال کی تھی تو گھر میں کھانے کیلئے بھی کچھ نہ تھا۔ چنانچہ تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ایڈیٹر ” ریاست“ پانچ روپیہ ماہوار پر حافظ آباد میں ایک بزاز کی دکان پر ملازم ہوا۔ کام یہ تھا کہ اندر سے کپڑے کے تھان لا کر خریداروں کو دکھائے جائیں۔ اس ملازمت کے دو واقعات مجھے یاد ہیں جن کا میرے کریکٹر پر بہت نمایاں اثر ہوا ۔ یہ دکان ہندو بزاز کی تھی اور اس دکان پر ایک بوڑھا مسلمان درزی اور اس کا جوان بیٹا کام کرتے تھے۔ یہ باپ اور بیٹا حافظ آباد کے قریب کسی گاﺅں کے رہنے والے تھے۔ ایک روز چند دن کے لئے باپ کسی شادی میں شریک ہونے اپنے گاﺅں گیا تو اپنی غیر حاضری کے دنوں کیلئے اپنے بیٹے کو چند کپڑے سپرد کر گیا تاکہ وہ ان کو تیار کر رکھے۔ بوڑھا درزی جب واپس آیا اور اس نے بیٹے کے تیار کئے ہوئے کپڑوں کو دیکھا تو ان میں کسی بچہ کا سبز رنگ کی مخمل کا ایک کوٹ بھی تھا۔ جس کو بیٹے نے بجائے سبز رنگ کے دھاگے کے سفید رنگ کے دھاگے سے سیا تھا۔ اس غلطی کو دیکھ کر بوڑھے باپ نے جوان بیٹے کے منہ پر زور سے تھپڑ مارا اور کہا: ” کہ نالائق تو دیہات کے رہنے والے جاٹ کے لڑکے (جس کا کوٹ سیا تھا) پر رحم نہ کرتا مگر اس مخمل پر تو رحم کرتا جس کا ستیا ناس کر دیا۔ چنانچہ بوڑھے باپ نے مخمل کے اس کوٹ کی سلائی کو کھولا۔ سفید دھاگے نکالے اور سبزدھاگے سے سیا۔ اس واقعہ کا میری طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ چاہے میں نے چھ روپے تنخواہ لی یا بارہ روپے یا دو سو روپے اور چاہے ملازمت کی یا خود اپنا کام کیا۔ تمام زندگی ہمیشہ کام کو دیکھ کر کام کیا نہ کہ اس کے معاوضے کو۔ ہمیشہ بارہ گھنٹے سے اٹھارہ گھنٹے تک کام کیا چاہے تنخواہ کچھ ہی ملتی تھی اور شاید ایک دفعہ بھی ایسا نہ ہوا ہوگا کہ کسی کام کو کرتے ہوئے اس پر پوری توجہ نہ دی ہو۔ غرض میرے کریکٹر پر اس واقعہ نے بہت بڑا اثر کیا ۔ خود داری کا کریکٹر ” ریاست“ جاری ہو چکا تھا اور دفتر ” ریاست“ پریڈ کے میدان کے قریب سڑک پر تھا ایک روز ایڈیٹر ” رئیس ہند“ اچکن میں سونے کے بٹن لگائے تشریف لائے اور تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد فرمایا کہ کرنل امریک سنگھ اے ڈی سی مہاراجہ پٹیالہ ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا اچھی بات ہے مل لوں گا۔ چنانچہ اگلے روز کرنل امریک سنگھ (جو چیمبر آف پرنسس کے دنوں میں مہاراجہ پٹیالہ کے ساتھ کنگز وے کے کیمپوں میں مقیم تھے) دفتر ” ریاست“ میں تشریف لائے اور آپ نے رسمی گفتگو کے بعد کہا کہ مجھے مہاراجہ پٹیالہ نے بھیجا ہے۔ مہاراجہ کو معلوم ہوا ہے کہ ایڈیٹر ”ریاست“ کا بطور ایک دوست مہارانجہ نابھہ پر بہت اثر ہے۔ مہاراجہ پٹیالہ کو مہاراجہ نابھہ کی گدی سے دست برداری کا بے حد افسوس ہے اور مہاراجہ پٹیالہ چاہتے ہیں کہ ایڈیٹر ” ریاست“ مہاراجہ پٹیالہ اور مہاراجہ نابھہ کے درمیان صلح کی بات چیت کرے۔ ایڈیٹر ” ریاست“ نے جواب دیا کہ اگر صلح ہو جائے تو اس سے زیادہ بہتر کیا ہے۔ چنانچہ ایڈیٹر ” ریاست“ رات کی گاڑی سے ڈیرہ دون گیا۔ مہاراجہ نابھہ سے ملا۔ کرنل سردار امریک سنگھ کا آنا اور تمام واقعات سننے کے بعد جو الفاظ کہے وہ میرے کانوں میں اب تک گونج رہے ہیں ۔ وہ یہ تھے: ” یہ تو ممکن ہے کہ مہاراجہ نابھہ تنگدستی ‘ افلاس اور غربت کے باعث گداگری اختیار کرے۔ اس کے پاس نہ کھانے کیلئے کچھ ہو اور نہ رہنے کیلئے مکان ‘ دن کو ڈیرہ دون کی سڑکیں کوٹ کر روٹی حاصل کرے اور رات کو گوردوارہ رام رائے ( جوڈیرہ دون میں ہے) کے برآمدے میں سڑک پر سو رہے ۔ مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنی خودداری کو جواب دے کر وہ مہاراجہ پٹیالہ سے ہاتھ ملائے“۔ اس جواب کو سن کر ایڈیٹر ” ریاست“ رات کو ڈیرہ دون سے سوار ہوا۔ صبح دہلی پہنچا ‘ امریک سنگھ منتظر تھے جن کو پیغام کا جواب من و عن سنا دیا گیا۔ اس جواب کا کرنل امریک سنگھ اور ایڈیٹر ” ریاست“ دونوں کو افسوس تھا مگر اس واقعہ کا میرے کریکٹر پر یہ اثر ہوا کہ اس کے بعد زندگی میں کم ہی ایسے واقعات ہیں جب خود داری کو جواب دے کر ایڈیٹر ” ریاست“ کبھی دشمن کے سامنے جھکا ہو۔ چنانچہ نواب بھوپال کے مقدمہ میں میرے اس کریکٹر نے بہت بڑا پارٹ ادا کیا اور چھ برس کی مقدمہ بازی میں قدم آگے ہی بڑھتا گیا۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 024 reviews.